صادقین احمد نقوی:فخر پاكستانسید صادقین احمد نقوی پاکستان کے شہرہ آفاق مصور، خطاط اور نقاش تھے جنہیں صادقین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُن کی وجہ شہرت اسلامی خطاطی اور مصوری ہے۔ فرانس کے آرٹ سرکلز میں پاکستانی پکاسو کے نام سے یاد کیے جانے والے صادقین نے پاکستان میں فن خطاطی کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا۔ صادقین 30 جون 1930 ءکو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم امروہہ میں اپنے آبائی اسکول امام المدارس سے حاصل کی۔ اپنی ابتدائی عمر سے ہی آپ فنکارانہ صلاحیتوں كے مالك تھے۔ وہ صرف گیارہ سال كے ہی تھے كہ انہوں نے جغرافیہ كی كتاب كو ہاتھ سے تحریر كیا۔ صادقین نے اپنے بچپن میں جب دوسری جنگ عظیم جاری تھی دیواروں پر فوج كی نقل و حركت كی عكاسی كرتے نقشے پینٹ كیے۔ صادقین نے 1948 ء میں آگرہ یونیورسٹی سے فنون لطیفہ کی تاریخ اور جغرافیہ میں گریجویشن کی اوراسی سال پاکستان ہجرت کی۔ انہوں نے 15000 سے زیادہ مصوری، خطاطی اور میورلز كے فن پارے تخلیق كیے۔ انہوں نے کئی پینٹنگ سیریز تیار کیں، جن میں سے ہر ایک میں مختلف فنکارانہ تاثرات شامل تھے۔ ان کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1954ء میں کوئٹہ میں ہوئی تھی جس کے بعد فرانس، امریکا، مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ایسی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ مارچ 1970ء میں آپ کو تمغا امتیاز اور 1985ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ آپ کو سب سے پہلے کلام غالب کو تصویری قالب میں ڈھالنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ کی خطاطی و مصوری کے نمونے فیصل مسجد اسلام آباد، فریئر ہال کراچی، نیشنل میوزیم کراچی، صادقین آرٹ گیلری اور دنیا کے ممتاز عجائب گھروں میں موجود ہیں۔ صادقین نے قرآنِ کریم کی آیات کی جس مؤثر، دل نشیں اور قابلِ فہم انداز میں خطاطی کی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے، بالخصوص سورہ رحمن کی آیات کی خطاطی کو پاکستانی قوم اپنا سرمایۂ افتخار قرار دے سکتی ہے، غالب اور فیض کے منتخب اشعار کی منفرد انداز میں خطاطی اور تشریحی مصوری ان ہی کا خاصہ ہے، انھیں فرانس، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کی جانب بھی سے اعزازات سے نوازا گیا۔ صادقین نے ہزاروں رباعیات بھی لکھیں اور ان میں سے بہت سے رباعیات صادقین کی اپنی چار جلدوں میں بیان کیں۔ ان کا انتقال 10 فروری  1987 ءکو ہوا اور انہیں کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔2021 ء میں بعد از وفات انہیں نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا۔